منگل 28 جنوری 2025, 10:49 صبح
      آخری اپ ڈیٹ منگل 28 جنوری 2025, 10:57 صبح
وفاقی حکومت نے جسٹس منصورعلی شاہ کے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق آرڈر کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے آئینی بینچ کو وفاقی حکومت کے فیصلے سے متعلق مؤقف سے آگاہ کردیا
اٹارنی جنرل کے مطابق غیر آئینی فیصلہ ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت اسے چیلنج کرے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی اور ججز آئینی کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل مشتمل 2 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ نذر عباس نے جان بوجھ کر توہینِ عدالت نہیں کی،نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیکر معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھیجا جاتا ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو اختیار نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل آرڈر کے باوجود کیس واپس لے، ججز آئینی کمیٹی کو بھی یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں انتظامی آرڈر کے ذریعے کیس واپس لیتی۔ نذر عباس کی کوئی غلطی نہیں ہے نہ ہی انہوں نے جان بوجھ کر کیس فکس کرنے میں غفلت برتی، نذر عباس کا کیس فکس نہ کرنے پر کوئی ان کا ذاتی مفاد نہیں تھا، ان کے اقدام میں کوئی بدنیتی ظاہر نہیں ہو رہی، نذر عباس کا اقدام توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔
نذر عباس کی وضاحت قبول کرکے توہینِ عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہیں۔ ججز کمیٹیوں نے جوڈیشل آرڈر نظر انداز کیا یا نہیں، یہ معاملہ فل کورٹ ہی طے کر سکتا ہے، اس حوالے سے 14 رکنی بینچ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔
چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ تشکیل دے کر اس معاملے کو دیکھیں۔ فل کورٹ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 6 کے تحت اس معاملے کو دیکھے، کسٹمز کیس واپس اسی بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے جس 3رکنی بینچ نے یہ کیس پہلے سنا تھا۔
عدالتی فیصلے میں تحریر کیا گیا ہے کہ ہم نے اس سوال پر بھی غور کیا ہے کہ کیا مبینہ توہین کے مرتکب افراد کے خلاف شوکاز نوٹس ختم ہونے کے بعد معاملے کو نمٹا ہوا سمجھا جائے یا یہ معاملہ ان 2کمیٹیوں کے اراکین کے خلاف مزید کارروائی کے لیے جاری رہے۔
پہلی کمیٹی نے غیر قانونی طور پر زیر سماعت مقدمات کو ایک بینچ سے واپس لے کر انتظامی حکم کے ذریعے دوسری کمیٹی کے سپرد کیا، جس سے عدالتی حکم کا اثر زائل ہوا،دوسری کمیٹی نے عدالتی حکم کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے محض پہلی کمیٹی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مقدمہ 27 جنوری 2025 کو آئینی بینچ کے سامنے مقرر کر دیا۔
دونوں کمیٹیاں 17 جنوری 2025 کو عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے انتظامی فیصلے لینے کی مجاز نہیں تھیں، اس پس منظر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان دو کمیٹیوں کے اراکین کے خلاف مزید کارروائی کی جانی چاہیے تاہم عدالتی روایات اور وقار کا تقاضا ہے کہ اس سوال کو سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے ذریعے طے کیا جائے تاکہ اسے حتمی اور مستند طور پر حل کیا جا سکے۔
ہم یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ ایک ہائیکورٹ کے رجسٹرار کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کو اتنی اہمیت دی گئی کہ 14 ججوں پر مشتمل ایک بڑا بنچ تشکیل دیا گیا ،لہذا ہماری رائے میں یہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے، جو اس عدالت کے تمام ججوں کی اجتماعی اور ادارہ جاتی غور و فکر کا متقاضی ہے، اس لیے ہم اس معاملے کو چیف جسٹس کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ فل کورٹ تشکیل دے کر اس اہم مسئلے پر غور اور فیصلہ کیا جا سکے۔
یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کو ایکٹ کی دفعہ 2 کے تحت قائم کمیٹی کے حوالے نہیں کیا گیا کیونکہ اس کی اتھارٹی سپریم کورٹ کے بینچز کی تشکیل تک محدود ہے، عدالت کے بنچز اور فل کورٹ کے درمیان فرق آئین کے آرٹیکل203J(2)(c) اور (d) کی دفعات میں تسلیم شدہ ہے اور فل کورٹ بلانے کی ذمے داری روایتی طور پر چیف جسٹس کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔