خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں جاری قبائلی جھڑپوں میں ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گیا ہے جب کہ فائرنگ کے تازہ واقعات میں مزید 2 افراد جان کی بازی ہار گئے اور 10 زخمی ہو گئے۔
پولیس نے تصدیق کی کہ تشدد کا تازہ ترین سلسلہ، جو اب اپنے دسویں دن میں داخل ہو رہا ہے، مجموعی طور پر 124 افراد ہلاک اور 178 دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔
کرم ریجن کو مواصلاتی بلیک آؤٹ کا سامنا ہے، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل اور تعلیمی ادارے بند ہیں۔
ضلعی انتظامیہ کے مطابق مرکزی پشاور پاراچنار شاہراہ کی مسلسل بندش سے روزمرہ کی زندگی اور تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔
امن کی بحالی کی کوششیں جاری ہیں، ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کا کہنا ہے کہ دونوں متحارب فریقین کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم جنگ بندی پر پیش رفت اور ٹرانسپورٹ روٹس کے دوبارہ کھلنے کے لیے پرامید ہیں۔
دریں اثناء بدامنی کے درمیان عدالتی اہلکار پاراچنار میں پھنسے ہوئے ہیں۔
صدہ تحصیل بار کے صدر کے مطابق دو ججز اور عدالتی عملے کے 25 ارکان گزشتہ 10 دنوں سے علاقہ چھوڑنے سے قاصر ہیں۔ صوبائی حکومت نے انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایئر لفٹنگ کی تجویز دی تھی لیکن ابھی تک کوئی ریسکیو آپریشن نہیں کیا گیا۔
21 نومبر سے حالات کشیدہ ہیں اور حالیہ جنگ بندی معاہدے کے باوجود تشدد جاری ہے۔
ہفتے کے شروع میں 10 دن کی جنگ بندی کی گئی تھی، لیکن وقفے وقفے سے ہونے والے تشدد نے اسے غیر موثر کر دیا ہے۔
جھڑپوں کا حالیہ واقعہ نو روز قبل پولیس کی نگرانی میں دو الگ الگ قافلوں پر گھات لگانے سے شروع ہوا جس کے نتیجے میں پہلے دن 52 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد سے متحارب دھڑوں کے درمیان تشدد میں اضافہ ہوا ہے، پولیس کو کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔
مرکزی شاہراہ کی بندش سے نہ صرف مقامی آمدورفت متاثر ہوئی ہے بلکہ افغانستان کے ساتھ تجارت بھی مکمل طور پر معطل ہو گئی ہے، خاص طور پر خرلاچ بارڈر پر۔ دریں اثنا، ضلعی انتظامیہ جنگ بندی کو نافذ کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے اس سال جولائی اور اکتوبر کے درمیان خطے میں 79 اموات ریکارڈ کیں، جو مسلسل عدم استحکام کو نمایاں کرتی ہیں۔
امن کی ثالثی کی پچھلی کوششیں، بشمول اس ماہ کے شروع میں صوبائی حکام کی ثالثی میں سات روزہ جنگ بندی، ناکام رہی ہیں۔
کے پی کے چیف سیکریٹری ندیم اسلم چوہدری اور آئی جی پی اختر حیات گنڈہ پور سمیت ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد نے بھی گزشتہ ہفتے کے آخر میں جنگ بندی پر بات چیت کی تھی، لیکن اس کے فوراً بعد تشدد دوبارہ شروع ہوگیا۔